معصوم مجرم urdu hindi kids moral story free
معصوم مجرم
مجھے جنگل میں چھپے آج پانچواں دن تھا۔ پانچ دن سے میں جنگلی پھلوں اور درختوں کے پتے کھا کرزندہ تھا۔ ویسے میری جیب میں نوٹوں کی ایک گڈی بھی تھی ، مگر اس جنگل بیاباں میں وہ رپے میرے لیے ردی کاغذوں کاس ایک ڈھیر کی طرح تھے۔
: معصوم سندھو
مجھے جنگل میں چھپے آج پانچواں دن تھا۔ پانچ دن سے میں جنگلی پھلوں اور درختوں کے پتے کھا کرزندہ تھا۔ ویسے میری جیب میں نوٹوں کی ایک گڈی بھی تھی ، مگر اس جنگل بیاباں میں وہ رپے میرے لیے ردی کاغذوں کاس ایک ڈھیر کی طرح تھے۔ خودروجھاڑیوں میں چھپے ایک بڑے درخت کے کھوکھلے تنے کو میں نے اپنا ٹھکانا بنالیا تھا۔ سخت زمین پر نرم شاکوں اور پتوں کو بچھا کر بستر سابنالیا تھا، جہاں میں چھپا رہتا۔ جب بھوک لگتی تو باہر نکلتا، ذرا کھٹکاہوتا تو بھاگ کر اپنی پناہ گاہ میں چھپ جاتا۔
پانچ دن پہلے رونما ہونے والا وہ خوفناک واقعہ بار بار میری آنکھوں کے سامنے اُبھرتا، جب میرے ہاتھوں ایک انسان کا قتل ہوگیا تھا۔
وہ ایک روشن صبح تھی جب جان پہچان کاایک شخص میرے پاس آیا اور درخواست کی کہ میں اس کے ساتھ چلوں۔ اس نے بتایا کہ ایک لفنگا اسے تنگ کرتا ہے اور اس رقم مانگتا ہے۔ میں چوں کہ اچھے قد کاٹھ تھا اور تن سازی بھی کرتا تھا۔ علاقے میں میرادبدبا بھی تھا، اس لیے وہ چاہتا تھا کہ میں اس کے ساتھ جاکر اس لفنگے کو ذرا ڈرا دھمکادوں۔ مجھے چوں کہ اپنی دھاک بٹھانے کاایک موقع مل رہاتھا، اس لیے میں اس کے ساتھ چل پڑا۔
اس نے مجھے ایک پستول بھی دیااور کہا: یہ صرف اسے ڈرانے کے لیے ہے۔ ہم اسی وقت وہاں پہنچ گئے۔ وہ شخص ایک زیرزمین تہ خانے میں بیٹھاتھا۔ میں نے اس سے بات کی تو اس نے ذرا کٹر دکھائی۔ چنانچہ میں نے اسے ڈرانے کے لیے پستول نکال لیا۔ ہم میں ہاتھا پائی ہوئی۔ اسی دوران اچانک گولی چل گئی۔ وہ شخص خون میں لت پت گرپڑا، جو شخص مجھے لے کر آیاتھا، بولا: یہ کیاکردیاتم نے میں نے توصرف ڈرانے کے لیے کہاتھا، تم نے اسے جان سے مارڈالا۔
اس نے مجھے سے پستول لے لیا اور کہا: جلدی یہاں سے بھاگ جاؤ پکڑے گئے تو پھانسی چڑھ جاؤ گے۔
میں وہاں سے بھاگنے لگاتواس نے نوٹوں کی ایک گڈی مجھے تھمادی، ساتھ ہی پستول دے کرکہا: اسے کسی ویران جگہ پھینک دینا۔
میں وہاں سے نکلا تو سخت گھبرایا ہوا تھا۔ سوچ رہاتھا کہ کہاں جاؤں ۔ گھر گیا تو پولیس پکڑلے گی۔ رشتے داروں کے ہاں سے بھی ڈھونڈنکالے گی۔ پھر میں نے جنگل میں چھپنے کافیصلہ کرلیا۔ پستول کو میں نے جھاڑیوں میں پھینک دیا۔ جنگل میں تھوڑی سی تلاش کے بعد مجھے درختوں اور جھاڑیوں میں چھپی یہ کھوہ مل گئی اور میں یہاں چھپ گیا۔ بھوک لگتی تو جنگلی پھل یاپتے کھالیتا۔ قریب ہی ندی بہ رہی تھی، وہاں پیاس بجھا لیتا۔
پانچ دن اور گزرگئے۔ ان دس دنوں میں مجھے کوی انسانی شکل نظر نہ آئی تھی۔ تنہائی کاٹنے کو دوڑتی۔ جرم کا احساس الگ جان کھاتا۔ ہر وقت پکڑنے جانے کا ڈرسا لگارہتا۔ اتفاق سے ابھی کسی بڑے درندے سے میرا سامنا نہیں ہواتھا۔ یہ خدشہ بھی ایک دن سامنے آہی گیا۔ میں اپنی پناہ گاہ میں بیٹھا تھا کہ ایک سیاہ چیز کو ادھر آتے دیکھا۔ یہ ایک بڑا کالا ریچھ تھا، جو میری بوسونگتا ادھیر چلاآرہاتھا۔ میں نے اپنی حفاظت کے لیے کچھ پتھر ریچھ کی تھوتھنی پردے مارا۔ تھوتھنی پر لگی ہوئی چوٹ اور میری خوفناک چیخ سے گھبرا کرریچھ غراتا ہوا واپس بھاگ گیا۔
ریچھ تو بھاگ گیا، مگر مجھے ڈرکالگ گیا کہ ریچھ کو میری موجودگی کا پتا چل گیا ہے۔ وہ اپنی چوٹ کا بدلہ لینے ضرورآئے گا۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ کوئی اور ٹھکانا ڈھونڈا جائے۔ میں کھوہ سے نکلا اور کوئی دوسرا ٹھکانا ڈھونڈنے لگا۔ ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ کچھ آہٹیں سنائی دیں۔ کچھ لوگ ادر آرہے تھے۔ مجھے لگا جیسے وہ میری تلاش میں ہی آرہے ہیں۔ میں بھاگا اور اپنی پناہ گاہ میں آکر چھپ گیا۔ پھر آہٹیں اور آوازیں واضح ہونے لگیں۔ ایک کتے کے بھونکنے کی آواز بھی آئی۔ وہ سدھائے ہوئے کتے کولے کر میری تلاش میں آئے تھے۔ پھرکسی نے کہا: وہ یہیں ہے۔ اس کے قدموں کے نشان ہیں یہاں۔ کھوجی کتا بھی جھنڈے کے پاس آکے بھونکنے لگا۔
تم پولیس کے گھیرے میں آچکے ہو، بالکل نکل آؤ۔ ایک آواز آئی۔
اب چھپے رہنا بے کار تھا۔ میں نہتا تھا اور ان کے گھیرے میں آچکا تھا۔ میں زینگتا ہوا کھوہ سے باہر نکل آیا۔
آؤآؤ۔ پولیس کی وردی پہنے ایک افسر نے نرمی سے کہا۔ کتے کے علاوہ وہ چارآدمی تھے۔ مجھے گھیرے میں لے کر وہ چل پڑے۔
میرا اسے جان سے مارنے کاارادہ نہیں تھا۔ گولی اتفاقاََ چل گئی۔ میں نے اپنی صفائی میں کہا۔
پولیس انسپکٹر نے میری طرف دیکھااور کہا: کچھ فکرنہ کرو، اصل مجرم گرفتار ہوچکا ہے اور اس نے اقرار جرم کرلیا ہے۔
لیکن پستول تو میرے ہاتھ میں تھا۔ میں نے حیرت سے کہا۔
ایک پستول مجرم کے پاس بھی تھا۔ جب تمھاری مقتول سے ہاتھا پائی ہوئی تو اس نے پیچھے سے اسے گولی ماردی۔ اس کی مقتول سے دشمنی تھی۔ اس نے سازش کی اور تمھیں ساتھ ملایا تھا، تاکہ اپنا جرم تمھارے سرتھوپ دے۔
مگر آپ اس تک کیسے پہنچے؟ میں نے الجھ کرکہا۔
مقتول کے موبائل ڈیٹا سے مجرم کامقتول سے موبائل پررابطہ ہواتھا۔ مجرم کا کہنا تھا کہ وہ بیچ بچاؤ کرارہا تھا مگر تمھارے پھینکے ہوئے پستول نے اس کابھانڈا پھوڑدیا، کیوں کہ جب جھاڑیوں سے ہمیں وہ پستول ملاتو اس پردومختلف ہاتھوں کی انگلیوں کے نشان مٹانا بھول گیا۔ جب ہم نے سختی کی تو اس نے بیچ اگل دیا۔
شکر ہے خدایا۔ میں نے ایک لمبی سانس لے کرکہا۔
اس آزمائش سے تم نے کیاسیکھا؟ انسپکٹر نے پوچھا۔
یہ کہ اپنی طاقت پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے، عاجزی اختیار کرنی چاہیے اور․․․․․․ اور سوچ سمجھ کر کسی پر اعتبار کرنا چاہیے۔ انسپکٹر نے بات مکمل کردی۔
مجھے جنگل میں چھپے آج پانچواں دن تھا۔ پانچ دن سے میں جنگلی پھلوں اور درختوں کے پتے کھا کرزندہ تھا۔ ویسے میری جیب میں نوٹوں کی ایک گڈی بھی تھی ، مگر اس جنگل بیاباں میں وہ رپے میرے لیے ردی کاغذوں کاس ایک ڈھیر کی طرح تھے۔ خودروجھاڑیوں میں چھپے ایک بڑے درخت کے کھوکھلے تنے کو میں نے اپنا ٹھکانا بنالیا تھا۔ سخت زمین پر نرم شاکوں اور پتوں کو بچھا کر بستر سابنالیا تھا، جہاں میں چھپا رہتا۔ جب بھوک لگتی تو باہر نکلتا، ذرا کھٹکاہوتا تو بھاگ کر اپنی پناہ گاہ میں چھپ جاتا۔
پانچ دن پہلے رونما ہونے والا وہ خوفناک واقعہ بار بار میری آنکھوں کے سامنے اُبھرتا، جب میرے ہاتھوں ایک انسان کا قتل ہوگیا تھا۔
وہ ایک روشن صبح تھی جب جان پہچان کاایک شخص میرے پاس آیا اور درخواست کی کہ میں اس کے ساتھ چلوں۔ اس نے بتایا کہ ایک لفنگا اسے تنگ کرتا ہے اور اس رقم مانگتا ہے۔ میں چوں کہ اچھے قد کاٹھ تھا اور تن سازی بھی کرتا تھا۔ علاقے میں میرادبدبا بھی تھا، اس لیے وہ چاہتا تھا کہ میں اس کے ساتھ جاکر اس لفنگے کو ذرا ڈرا دھمکادوں۔ مجھے چوں کہ اپنی دھاک بٹھانے کاایک موقع مل رہاتھا، اس لیے میں اس کے ساتھ چل پڑا۔
اس نے مجھے ایک پستول بھی دیااور کہا: یہ صرف اسے ڈرانے کے لیے ہے۔ ہم اسی وقت وہاں پہنچ گئے۔ وہ شخص ایک زیرزمین تہ خانے میں بیٹھاتھا۔ میں نے اس سے بات کی تو اس نے ذرا کٹر دکھائی۔ چنانچہ میں نے اسے ڈرانے کے لیے پستول نکال لیا۔ ہم میں ہاتھا پائی ہوئی۔ اسی دوران اچانک گولی چل گئی۔ وہ شخص خون میں لت پت گرپڑا، جو شخص مجھے لے کر آیاتھا، بولا: یہ کیاکردیاتم نے میں نے توصرف ڈرانے کے لیے کہاتھا، تم نے اسے جان سے مارڈالا۔
اس نے مجھے سے پستول لے لیا اور کہا: جلدی یہاں سے بھاگ جاؤ پکڑے گئے تو پھانسی چڑھ جاؤ گے۔
میں وہاں سے بھاگنے لگاتواس نے نوٹوں کی ایک گڈی مجھے تھمادی، ساتھ ہی پستول دے کرکہا: اسے کسی ویران جگہ پھینک دینا۔
میں وہاں سے نکلا تو سخت گھبرایا ہوا تھا۔ سوچ رہاتھا کہ کہاں جاؤں ۔ گھر گیا تو پولیس پکڑلے گی۔ رشتے داروں کے ہاں سے بھی ڈھونڈنکالے گی۔ پھر میں نے جنگل میں چھپنے کافیصلہ کرلیا۔ پستول کو میں نے جھاڑیوں میں پھینک دیا۔ جنگل میں تھوڑی سی تلاش کے بعد مجھے درختوں اور جھاڑیوں میں چھپی یہ کھوہ مل گئی اور میں یہاں چھپ گیا۔ بھوک لگتی تو جنگلی پھل یاپتے کھالیتا۔ قریب ہی ندی بہ رہی تھی، وہاں پیاس بجھا لیتا۔
پانچ دن اور گزرگئے۔ ان دس دنوں میں مجھے کوی انسانی شکل نظر نہ آئی تھی۔ تنہائی کاٹنے کو دوڑتی۔ جرم کا احساس الگ جان کھاتا۔ ہر وقت پکڑنے جانے کا ڈرسا لگارہتا۔ اتفاق سے ابھی کسی بڑے درندے سے میرا سامنا نہیں ہواتھا۔ یہ خدشہ بھی ایک دن سامنے آہی گیا۔ میں اپنی پناہ گاہ میں بیٹھا تھا کہ ایک سیاہ چیز کو ادھر آتے دیکھا۔ یہ ایک بڑا کالا ریچھ تھا، جو میری بوسونگتا ادھیر چلاآرہاتھا۔ میں نے اپنی حفاظت کے لیے کچھ پتھر ریچھ کی تھوتھنی پردے مارا۔ تھوتھنی پر لگی ہوئی چوٹ اور میری خوفناک چیخ سے گھبرا کرریچھ غراتا ہوا واپس بھاگ گیا۔
ریچھ تو بھاگ گیا، مگر مجھے ڈرکالگ گیا کہ ریچھ کو میری موجودگی کا پتا چل گیا ہے۔ وہ اپنی چوٹ کا بدلہ لینے ضرورآئے گا۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ کوئی اور ٹھکانا ڈھونڈا جائے۔ میں کھوہ سے نکلا اور کوئی دوسرا ٹھکانا ڈھونڈنے لگا۔ ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ کچھ آہٹیں سنائی دیں۔ کچھ لوگ ادر آرہے تھے۔ مجھے لگا جیسے وہ میری تلاش میں ہی آرہے ہیں۔ میں بھاگا اور اپنی پناہ گاہ میں آکر چھپ گیا۔ پھر آہٹیں اور آوازیں واضح ہونے لگیں۔ ایک کتے کے بھونکنے کی آواز بھی آئی۔ وہ سدھائے ہوئے کتے کولے کر میری تلاش میں آئے تھے۔ پھرکسی نے کہا: وہ یہیں ہے۔ اس کے قدموں کے نشان ہیں یہاں۔ کھوجی کتا بھی جھنڈے کے پاس آکے بھونکنے لگا۔
تم پولیس کے گھیرے میں آچکے ہو، بالکل نکل آؤ۔ ایک آواز آئی۔
اب چھپے رہنا بے کار تھا۔ میں نہتا تھا اور ان کے گھیرے میں آچکا تھا۔ میں زینگتا ہوا کھوہ سے باہر نکل آیا۔
آؤآؤ۔ پولیس کی وردی پہنے ایک افسر نے نرمی سے کہا۔ کتے کے علاوہ وہ چارآدمی تھے۔ مجھے گھیرے میں لے کر وہ چل پڑے۔
میرا اسے جان سے مارنے کاارادہ نہیں تھا۔ گولی اتفاقاََ چل گئی۔ میں نے اپنی صفائی میں کہا۔
پولیس انسپکٹر نے میری طرف دیکھااور کہا: کچھ فکرنہ کرو، اصل مجرم گرفتار ہوچکا ہے اور اس نے اقرار جرم کرلیا ہے۔
لیکن پستول تو میرے ہاتھ میں تھا۔ میں نے حیرت سے کہا۔
ایک پستول مجرم کے پاس بھی تھا۔ جب تمھاری مقتول سے ہاتھا پائی ہوئی تو اس نے پیچھے سے اسے گولی ماردی۔ اس کی مقتول سے دشمنی تھی۔ اس نے سازش کی اور تمھیں ساتھ ملایا تھا، تاکہ اپنا جرم تمھارے سرتھوپ دے۔
مگر آپ اس تک کیسے پہنچے؟ میں نے الجھ کرکہا۔
مقتول کے موبائل ڈیٹا سے مجرم کامقتول سے موبائل پررابطہ ہواتھا۔ مجرم کا کہنا تھا کہ وہ بیچ بچاؤ کرارہا تھا مگر تمھارے پھینکے ہوئے پستول نے اس کابھانڈا پھوڑدیا، کیوں کہ جب جھاڑیوں سے ہمیں وہ پستول ملاتو اس پردومختلف ہاتھوں کی انگلیوں کے نشان مٹانا بھول گیا۔ جب ہم نے سختی کی تو اس نے بیچ اگل دیا۔
شکر ہے خدایا۔ میں نے ایک لمبی سانس لے کرکہا۔
اس آزمائش سے تم نے کیاسیکھا؟ انسپکٹر نے پوچھا۔
یہ کہ اپنی طاقت پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے، عاجزی اختیار کرنی چاہیے اور․․․․․․ اور سوچ سمجھ کر کسی پر اعتبار کرنا چاہیے۔ انسپکٹر نے بات مکمل کردی۔
0 comments here: