تنہا بندر urdu hindi moral story for kids
تنہا بندر
بہت دور عین ایک سبز اورنیلے پانیوں والے سمندر کے بیچوں بیچ ایک جزیرہ تھا۔ سورج ہر صبح چمکتا اور اُس جزیرے پر سفید ریت کو چمکاتااور جزیرے کے ارد گرد سمندر کے پانی کو بھی گرم کرتا۔ اِس جزیرے پر ناریل کے درخت لگے ہوئے تھے ،اسکے علاوہ کیلے کے بھی درخت تھے جو کیلوں کے گچھوں سے لدے ہوئے تھے اور س جزیرے پر پتہ ہے کون رہتا تھا؟ صرف ایک چھوٹا سا بھورے رنگ کا بندر جس کی دم بہت لمبی تھی اور اُس میں بل بھی پڑے رہتے تھے۔
معصوم سندھو
بہت دور عین ایک سبز اورنیلے پانیوں والے سمندر کے بیچوں بیچ ایک جزیرہ تھا۔ سورج ہر صبح چمکتا اور اُس جزیرے پر سفید ریت کو چمکاتااور جزیرے کے ارد گرد سمندر کے پانی کو بھی گرم کرتا۔ اِس جزیرے پر ناریل کے درخت لگے ہوئے تھے ،اسکے علاوہ کیلے کے بھی درخت تھے جو کیلوں کے گچھوں سے لدے ہوئے تھے اور س جزیرے پر پتہ ہے کون رہتا تھا؟ صرف ایک چھوٹا سا بھورے رنگ کا بندر جس کی دم بہت لمبی تھی اور اُس میں بل بھی پڑے رہتے تھے۔
وہ چھوٹا بندر اکثر ساحل سمندرپر بیٹھ جاتا اور مایوسی میں اونچی آواز میں کہتا؛ ”میں کتنا اکیلا ہوں، کاش میرا بھی کوئی دوست ہوتا ،لیکن وہ جانتا تھا کہ اُسکی آواز سننے والا دور دور تک کوئی نہیں،ایک دن وہ یونہی بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بڑی ہی رنگ برنگی مچھلی نے پانی سے اپنا سر باہر نکالا اور اُس سے کہنے لگی، آؤ میرے پیچھے تیر کر آؤ میں تمہیں ایک ایسے جزیرے میں لے چلتی ہوں جہاں تمہاری طرح کے بہت سے بندر موجود ہیں،اُن کی دُمیں بھی تمہاری طرح کی ہی ہیں“۔
بندر افسردگی سے بولا“لیکن مجھے تو تیرنا نہیں آتا ،پیاری مچھلی کیا تم مجھے تیرنا سکھادوگی؟ “ مچھلی بولی”کیوں نہیں تم پانی میں چلنا شروع کرو اور جیسا میں کہتی ہوں، ویسا ہی کرو“ بندر نے اُسکا کہا مانا اور پانی میں اُتر گیا جب پانی گہرا ہوا تو مچھلی کہنے لگی ”اب پانی زمین سے اٹھاؤ اور بازو ہلاؤ“
بندرکی چیخ نکل گئی وہ بولا؛”مجھے یہ کام بالکل پسند نہیں ہے،میں سارا گیلا ہو گیا ہوں“ رنگ برنگی مچھلی کی ہنسی نکل گئی اور وہ تیرتی ہوئی دور نکل گئی جبکہ بندر خشکی پر بیٹھ کر بڑی دیر تک خود کو سُکھاتا رہا۔ قریب ہی ایک سفید بگلا کھڑا تھا،بولا ”آؤ میں تمہیں اُڑنا سکھاتا ہوں ،جلدی کرو میں اُڑنے لگا ہوں“
بندر پھر بے چار گی سے بولا”لیکن میں تو اُڑ نہیں سکتا“بگلے نے اسے کہا؛”سب سے اونچے ناریل کے درخت پر چڑھ جاؤ اور اپنے بازو پھیلا کر چھلانگ لگادو تم اُڑنے لگو گے“بندر نے بگلے کا کہا مانا لینک وہ پورے زور سے سیدھا ریت پر آگرا کچھ ناریل بھی ٹوٹ کر اُس کے سر پر آن گرے۔ بندر نے اِدھر اُدھر بگلے کو دیکھا مگر وہ تو اُڑکر جا چکا تھا۔
تبھی بندر کے ذہن میں ایک ترکیب آئی وہ چھلانگ لگا کر خوشی سے اٹھا اور کہنے لگا؛ میں ناریل اور کیلے کے درخت کاٹوں گا اور اُن سے کشتی بناؤں گا، اُس کشتی میں بیٹھ کر دوسرے جزیرے تک جاؤں گا، جہاں مجھے بہت سے دوست مل جائیں گے، تبھی سمندر سے ایک آواز آئی؛ ”یہ بہت ہی احمقانہ ترکیب ہے“ بندر نے دیکھا تو وہ ایک سبز رنگ کا چھوٹا سا کچھوا تھا جو آہستہ آہستہ خشکی سے سمندر کی طرف جا رہا تھا وہ کہنے لگا”اگر تم جزیرے کے درخت کاٹ لو گے تو کھاؤ گے کہا سے؟ اور دوسرے پرندے بھی بھوکے مرجائیں گے۔
بندر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ کچھوا بولا”میں تمہیں اپنی پیٹھ پر سوار کرکے وہاں لے جاتا لیکن تم بہت بڑے اور بھاری ہو“ یہ کہہ کر کچھوا سمندر کے پانی میں تیرتا ہوا گم ہوگیا۔ بندر اُس کے جانے کے بعد پھر اکیلارہ گیا۔ وہ اتنا اداس تھا کے رونے لگا۔
پھر اچانک سمندر سے ایک بہت بڑا کچھوا نکلا،اُسکا رنگ بھی سبز تھا وہ آہستہ آہستہ چھوٹے بندر کے پاس آیا اور اُسے کہنے لگا؛ آنسو پونچھ لو اور میری پیٹھ پر بیٹھ کر مضبوطی سے مجھے پکڑ لو، اب تم کبھی اکیلے نہیں رہوگے۔ میں تمہیں دوسرے جزیرے تک لے چلتا ہوں“
کچھوے کا خول اِتنا بڑا اور سخت تھا کہ بندر کو اندازاہ ہو گیا تھا کہ وہ محفوظ رہے گا۔ پھر اُس نے کچھوے کی کمر پر بیٹھ کر سمندر میں جھانکا تو اُس نے دیکھا کہ چھوٹا سبز کچھوابھی اُسکے ساتھ تیر رہا ہے۔
ننھا کچھوا بولا” مجھے علم تھا کہ میں تمہارا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا ، اِسلئے میں نے دادا جان سے کہا کہ وہ تمہاری مدد کریں وہ بہت عقل مند اور نیک دل ہیں“
چھوٹے بندر نے مسکرا کرکہا؛ تم بھی بہت اچھے ہو ،تمہاری مہربانی کا شکریہ اب میں کبھی اکیلا نہیں رہوں گا“
بہت دور عین ایک سبز اورنیلے پانیوں والے سمندر کے بیچوں بیچ ایک جزیرہ تھا۔ سورج ہر صبح چمکتا اور اُس جزیرے پر سفید ریت کو چمکاتااور جزیرے کے ارد گرد سمندر کے پانی کو بھی گرم کرتا۔ اِس جزیرے پر ناریل کے درخت لگے ہوئے تھے ،اسکے علاوہ کیلے کے بھی درخت تھے جو کیلوں کے گچھوں سے لدے ہوئے تھے اور س جزیرے پر پتہ ہے کون رہتا تھا؟ صرف ایک چھوٹا سا بھورے رنگ کا بندر جس کی دم بہت لمبی تھی اور اُس میں بل بھی پڑے رہتے تھے۔
وہ چھوٹا بندر اکثر ساحل سمندرپر بیٹھ جاتا اور مایوسی میں اونچی آواز میں کہتا؛ ”میں کتنا اکیلا ہوں، کاش میرا بھی کوئی دوست ہوتا ،لیکن وہ جانتا تھا کہ اُسکی آواز سننے والا دور دور تک کوئی نہیں،ایک دن وہ یونہی بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بڑی ہی رنگ برنگی مچھلی نے پانی سے اپنا سر باہر نکالا اور اُس سے کہنے لگی، آؤ میرے پیچھے تیر کر آؤ میں تمہیں ایک ایسے جزیرے میں لے چلتی ہوں جہاں تمہاری طرح کے بہت سے بندر موجود ہیں،اُن کی دُمیں بھی تمہاری طرح کی ہی ہیں“۔
بندر افسردگی سے بولا“لیکن مجھے تو تیرنا نہیں آتا ،پیاری مچھلی کیا تم مجھے تیرنا سکھادوگی؟ “ مچھلی بولی”کیوں نہیں تم پانی میں چلنا شروع کرو اور جیسا میں کہتی ہوں، ویسا ہی کرو“ بندر نے اُسکا کہا مانا اور پانی میں اُتر گیا جب پانی گہرا ہوا تو مچھلی کہنے لگی ”اب پانی زمین سے اٹھاؤ اور بازو ہلاؤ“
بندرکی چیخ نکل گئی وہ بولا؛”مجھے یہ کام بالکل پسند نہیں ہے،میں سارا گیلا ہو گیا ہوں“ رنگ برنگی مچھلی کی ہنسی نکل گئی اور وہ تیرتی ہوئی دور نکل گئی جبکہ بندر خشکی پر بیٹھ کر بڑی دیر تک خود کو سُکھاتا رہا۔ قریب ہی ایک سفید بگلا کھڑا تھا،بولا ”آؤ میں تمہیں اُڑنا سکھاتا ہوں ،جلدی کرو میں اُڑنے لگا ہوں“
بندر پھر بے چار گی سے بولا”لیکن میں تو اُڑ نہیں سکتا“بگلے نے اسے کہا؛”سب سے اونچے ناریل کے درخت پر چڑھ جاؤ اور اپنے بازو پھیلا کر چھلانگ لگادو تم اُڑنے لگو گے“بندر نے بگلے کا کہا مانا لینک وہ پورے زور سے سیدھا ریت پر آگرا کچھ ناریل بھی ٹوٹ کر اُس کے سر پر آن گرے۔ بندر نے اِدھر اُدھر بگلے کو دیکھا مگر وہ تو اُڑکر جا چکا تھا۔
تبھی بندر کے ذہن میں ایک ترکیب آئی وہ چھلانگ لگا کر خوشی سے اٹھا اور کہنے لگا؛ میں ناریل اور کیلے کے درخت کاٹوں گا اور اُن سے کشتی بناؤں گا، اُس کشتی میں بیٹھ کر دوسرے جزیرے تک جاؤں گا، جہاں مجھے بہت سے دوست مل جائیں گے، تبھی سمندر سے ایک آواز آئی؛ ”یہ بہت ہی احمقانہ ترکیب ہے“ بندر نے دیکھا تو وہ ایک سبز رنگ کا چھوٹا سا کچھوا تھا جو آہستہ آہستہ خشکی سے سمندر کی طرف جا رہا تھا وہ کہنے لگا”اگر تم جزیرے کے درخت کاٹ لو گے تو کھاؤ گے کہا سے؟ اور دوسرے پرندے بھی بھوکے مرجائیں گے۔
بندر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ کچھوا بولا”میں تمہیں اپنی پیٹھ پر سوار کرکے وہاں لے جاتا لیکن تم بہت بڑے اور بھاری ہو“ یہ کہہ کر کچھوا سمندر کے پانی میں تیرتا ہوا گم ہوگیا۔ بندر اُس کے جانے کے بعد پھر اکیلارہ گیا۔ وہ اتنا اداس تھا کے رونے لگا۔
پھر اچانک سمندر سے ایک بہت بڑا کچھوا نکلا،اُسکا رنگ بھی سبز تھا وہ آہستہ آہستہ چھوٹے بندر کے پاس آیا اور اُسے کہنے لگا؛ آنسو پونچھ لو اور میری پیٹھ پر بیٹھ کر مضبوطی سے مجھے پکڑ لو، اب تم کبھی اکیلے نہیں رہوگے۔ میں تمہیں دوسرے جزیرے تک لے چلتا ہوں“
کچھوے کا خول اِتنا بڑا اور سخت تھا کہ بندر کو اندازاہ ہو گیا تھا کہ وہ محفوظ رہے گا۔ پھر اُس نے کچھوے کی کمر پر بیٹھ کر سمندر میں جھانکا تو اُس نے دیکھا کہ چھوٹا سبز کچھوابھی اُسکے ساتھ تیر رہا ہے۔
ننھا کچھوا بولا” مجھے علم تھا کہ میں تمہارا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا ، اِسلئے میں نے دادا جان سے کہا کہ وہ تمہاری مدد کریں وہ بہت عقل مند اور نیک دل ہیں“
چھوٹے بندر نے مسکرا کرکہا؛ تم بھی بہت اچھے ہو ،تمہاری مہربانی کا شکریہ اب میں کبھی اکیلا نہیں رہوں گا“
0 comments here: