بُری عادت کی سزا Buri aadat ki Saza Urdu hindi Moral Kids Story
بُری عادت کی سزا
کسی شہر میں ایک بچہ محمد ادریس احمد رہتا تھا۔ وہ بہت نیک اور فرماں بردار بچہ تھا۔ سکول میں اُسکا ایک ہی دوست تھا جس کا نام سمیع تھا۔وہ بہت ذہین تھا مگر اُس میں ایک بُری عادت تھی کہ وہ چوری کرتا تھا۔ اِس بات کا علم صرف محمدادریس احمد کو تھا۔
معصومسندھو:
کسی شہر میں ایک بچہ محمد ادریس احمد رہتا تھا۔ وہ بہت نیک اور فرماں بردار بچہ تھا۔ سکول میں اُسکا ایک ہی دوست تھا جس کا نام سمیع تھا۔وہ بہت ذہین تھا مگر اُس میں ایک بُری عادت تھی کہ وہ چوری کرتا تھا۔ اِس بات کا علم صرف محمدادریس احمد کو تھا۔ وہ سمیع کو بہت سمجھاتا تھا کہ چوری کرنا بری عادت ہے لیکن وہ ہمیشہ ہی سنی اَن سنی کردیتا۔سمیع کو چوری کی عادت اس طرح پڑی کہ ایک مرتبہ محمد ادریس احمد نے سکول سے چھٹی کی،سمیع نے اپنے کلاس فیلو جس کا نام حنیف تھا کو اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ سمیع کو حنیف کا پنسل باکس بہت پسند آیا تو اُس نے چپکے سے حنیف کا پنسل باکس اپنے بیگ میں ڈال لیا۔ جب حنیف کو پتا چلا کہ اُس کا پنسل باکس گم ہوگیا ہے تو اُس نے سمیع سے اُسکے بارے میں میں پوچھا۔ سمیع نے کہا؛”اُسے علم نہیں ہے کہ اُسکا پنسل باکس کہا ں ہے“۔اِس کے بعد سمیع نے سوچا کہ اگر وہ چپکے سے کسی کی چیز کو اپنے پاس رکھ لے گا اور بعد میں تھوڑا ساجھوٹ بول لے گا تو اُسکے پاس بہت سی چیزیں جمع ہو جائیں گی۔ پھر اس نے باقاعدہ چوری کرنا شروع کردی۔ سمیع اب اکثر اپنے دوستوں کی چھوٹی موٹی چیزیں چُرا لیتا تھا۔ محمد ادریس احمد نے اُس کو بہت سمجھایا مگر اُس نے محمد ادریس سے بھی دوستی ختم کردی۔ اب اُس نے خراب لڑکوں میں بیٹھنا شروع کردیا تھا۔ یہ لڑکے بڑی چوریاں کرنے لگے تھے ۔ اب انہوں نے ایک منصوبہ بنا یا کہ وہ بینک لوٹیں گے۔ یہ اُن کی بدقسمتی تھی کہ جیسے ہی وہ بنک لوٹنے پہنچے تو پولیس کی موبائل بھی وہاں آگئی۔ سمیع اور اُسکے ساتھیوں نے پولیس کو دیکھ کر اُن پر فائرنگ شروع کردی۔ اِس فائرنگ سے سمیع کا ایک ساتھی اور ایک پولیس کانسٹیبل بھی مارا گیا۔ آخر کار پولیس نے سمیع اور اُسکے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔ جب پولیس نے سمیع سے تفتیش کی تو اُس نے بتایا کہ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہے۔ زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے بگڑ گیا اور آہستہ آہستہ عادی مجرم بن گیا۔ سمیع کا مقدمہ عدالت میں چلا تو عدالت نے اُس کو پھانسی کی سزا سنائی۔ محمد ادریس احمد نے جب یہ سارا واقعہ سناتو وہ سمیع سے ملنے جیل گیا اوراُس سے کہا کہ دیکھو میں تمہیں کتنا سمجھاتا تھا مگر تم نے میری بات نہیں سنی اور آج اِس کا انجام دیکھ لیا۔ اب سمیع اپنے کئے پر شرمندہ تھا۔ لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔
کسی شہر میں ایک بچہ محمد ادریس احمد رہتا تھا۔ وہ بہت نیک اور فرماں بردار بچہ تھا۔ سکول میں اُسکا ایک ہی دوست تھا جس کا نام سمیع تھا۔وہ بہت ذہین تھا مگر اُس میں ایک بُری عادت تھی کہ وہ چوری کرتا تھا۔ اِس بات کا علم صرف محمدادریس احمد کو تھا۔ وہ سمیع کو بہت سمجھاتا تھا کہ چوری کرنا بری عادت ہے لیکن وہ ہمیشہ ہی سنی اَن سنی کردیتا۔سمیع کو چوری کی عادت اس طرح پڑی کہ ایک مرتبہ محمد ادریس احمد نے سکول سے چھٹی کی،سمیع نے اپنے کلاس فیلو جس کا نام حنیف تھا کو اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ سمیع کو حنیف کا پنسل باکس بہت پسند آیا تو اُس نے چپکے سے حنیف کا پنسل باکس اپنے بیگ میں ڈال لیا۔ جب حنیف کو پتا چلا کہ اُس کا پنسل باکس گم ہوگیا ہے تو اُس نے سمیع سے اُسکے بارے میں میں پوچھا۔ سمیع نے کہا؛”اُسے علم نہیں ہے کہ اُسکا پنسل باکس کہا ں ہے“۔اِس کے بعد سمیع نے سوچا کہ اگر وہ چپکے سے کسی کی چیز کو اپنے پاس رکھ لے گا اور بعد میں تھوڑا ساجھوٹ بول لے گا تو اُسکے پاس بہت سی چیزیں جمع ہو جائیں گی۔ پھر اس نے باقاعدہ چوری کرنا شروع کردی۔ سمیع اب اکثر اپنے دوستوں کی چھوٹی موٹی چیزیں چُرا لیتا تھا۔ محمد ادریس احمد نے اُس کو بہت سمجھایا مگر اُس نے محمد ادریس سے بھی دوستی ختم کردی۔ اب اُس نے خراب لڑکوں میں بیٹھنا شروع کردیا تھا۔ یہ لڑکے بڑی چوریاں کرنے لگے تھے ۔ اب انہوں نے ایک منصوبہ بنا یا کہ وہ بینک لوٹیں گے۔ یہ اُن کی بدقسمتی تھی کہ جیسے ہی وہ بنک لوٹنے پہنچے تو پولیس کی موبائل بھی وہاں آگئی۔ سمیع اور اُسکے ساتھیوں نے پولیس کو دیکھ کر اُن پر فائرنگ شروع کردی۔ اِس فائرنگ سے سمیع کا ایک ساتھی اور ایک پولیس کانسٹیبل بھی مارا گیا۔ آخر کار پولیس نے سمیع اور اُسکے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔ جب پولیس نے سمیع سے تفتیش کی تو اُس نے بتایا کہ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہے۔ زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے بگڑ گیا اور آہستہ آہستہ عادی مجرم بن گیا۔ سمیع کا مقدمہ عدالت میں چلا تو عدالت نے اُس کو پھانسی کی سزا سنائی۔ محمد ادریس احمد نے جب یہ سارا واقعہ سناتو وہ سمیع سے ملنے جیل گیا اوراُس سے کہا کہ دیکھو میں تمہیں کتنا سمجھاتا تھا مگر تم نے میری بات نہیں سنی اور آج اِس کا انجام دیکھ لیا۔ اب سمیع اپنے کئے پر شرمندہ تھا۔ لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔
0 comments here: