غریب ہونا جرم نہیں Ghreeb hona jurm nahi
غریب ہونا جرم نہیں
لکڑہارا بنابادشاہ
بلال ظفر(معصوم سندھو ) :
برسوں پہلے کی بات ہے کہ ایک شہزادے کی لکڑہارے سے دوستی ہوگئی۔ ہوایوں کہ شہزادہ شکار کیلئے جنگل میں گیا کہ اچانک سامنے سے شیر آگیا اس کی دھاڑ سے گھوڑا بد ک گیا جس کی وجہ سے شہزادہ توازن برقرار نہ رکھ سکااور گرگیا۔ شیر کو بالکل سامنے دیکھتے ہوئے شہزادے فوراََ تلوار نکالی اور مقابلے کیلئے تیار ہوگیا۔ شیراس کی جانب لپکا شہزادے نے تلوار گھمائی جو شیر کی پسلیوں میں لگی اب زخمی شیر اور بھی خطرناک ہوگیا تھا۔ اس نے شہزادے پر چھلانگ لگائی تو شہزادے کے ہاتھ سے تلوار گرپڑی۔ شیرنے شہزادے کو زخمی کردیا۔ شہرادے نے خوب مقابلہ کیا مگر پھرے درندے سے مقابلہ آسان نہ تھا۔ آخر کار شیر نے اسے گرا دیا۔قریب تھا کہ شہزادے کی گردن دبوچتا اچانک شیردھاڑ کر پیچھے کو مڑا کسی نے اس کی کمر میں بڑی زور سے کلہاڑا ماراتھا۔ شیر دھاڑ اور جنگل کی طرف بھاگ نکلا۔ شہزادے نے دیکھا کہ ایک خوبصورت نوجوان نے فوراََ شہزادے کو اٹھایاایک محفوظ جگہ پر لے جا کر اس کی مرہم پٹی کی۔ کچھ دیر بعد شہزادے کے محافظ سے ڈھونڈتے ہوئے پہنچ گئے۔ انہوں نے شہزادے کو دوسرے گھوڑے پر بٹھایا اور محل کی طرف روانہ ہوگئے۔
یوں لکڑہارے کی شہزادے سے دوستی ہوگئی وہ اس کی تیمارداری کیلئے محل آنے لگا تھا۔ شہزادہ اسے پسند کرنے لگا تھا کیونکہ وہ ذہین ، عقلمند اور بہادر تھا۔ لیکن بادشاہ کو اس کی دوستی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ اس نے شہزادے نے احتجاج کیا کہ وہ میرا محسن ہے اور بہت اچھے اخلاق کامالک اور ذہین انسان ہے۔ غریب ہونا کوئی جرم نہیں۔ ایسے سمجھدار سے دوستی کاہاتھ بڑھایا ہے اب مجھیت زیب نہیں دیتا کہ اس سے تعلق توڑوں۔
بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ اسے اور اس کے خاندان کو ملک بدرکردیاجائے۔ یوں ایک فوجی دستہ لکڑہارے کو بے یاد مددد گار سرحد سے باہر چھوڑ آیا۔ کئی دنوں کی مسافت کے بعد وہ بھوکا پیاسا ایک بڑے شہر پہنچا جہاں کھلے میدان میں بڑے چبوترے پر بڑی پگڑیوں والے بہت سے سردار، امراء اور تاجر بیٹھے تھے جن کے سامنے میزپر پنجرے میں ایک پرندہ قید تھا۔ لکڑہارے نے اس بڑے اور عالیشان مجمع کا سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ کل ان کا بادشاہ فوت ہوگیا۔ آج یہاں نئے بادشاہ کا انتخاب ہوگا۔ کچھ لمحوں میں چبوترے پر رکھا پنجرہ کھولا جائے گا اس میں بیٹھا پرندہ جس کے کندھے پر بیٹھے گا وہی ہمارا بادشاہ ہوگا۔ لکڑہارا ارسلان یہ دلچسپ منظر دیکھنے لگا۔ قسمت کی خوبی جب پنجرہ کھولا تو پرندہ اڑ کر ارسلان کے کندھے پر آن بیٹھا۔ لوگوں نے تالیاں بجائیں اور اپنے نئے بادشاہ کو محل لے آئے اور رسومات کی ادائیگی کے بعد بادشاہت کاتاج ارسلان کے سرپرسجادیاگیا۔ یوں محنت ومشقت کرنے والا نیک دل اور بہادر لکڑہارا بادشاہ بن گیا۔ چندروز آرام وسکون سے حالات کاجائزہ لینے کے بعد اس نے مملکت کے معمالات دیکھنے شروع کیے تو معلوم ہوا کہ ملک میں لاقانونیت، لوٹ مار، غنڈہ گردی، چوری چکاری عام ہے۔ بے تحاشہ کرپشن اور رشوت ستانی کابازار گرم ہے۔ بااثر ظالموں سے کسی کی جان ومال محفوظ نہیں۔
بادشاہ کے دربار میں روزانہ ہزاروں درخواستیں دیتے ہیں مگر راشی داروغہ بادشاہ نہیں پہنچے دیتا۔ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس نے اعلان کروادیا کہ آج کے بعد کوئی رشوت نہیں لے گا۔ اگر معلوم ہوگیا تو اس کی سزا پھانسی ہوگی۔ ہر طرف سناٹاچھاگیا مگرلوگ کب بازآنے والے تھے۔ انہوں نے رشوت لینی نہ چھوڑی جس جس کاپتہ چلتا اسے پھانسی چڑھا دیاجاتا۔ کچھ ہی دنوں میں رشوت لینے اور دینے والوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ رشوت کے خاتمے کے ساتھ ہی غنڈہ گردی اور لاقانونیت کابھی خاتمہ ہوگیا۔ ہر شخص اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق کاخیال کرنے لگا۔ یوں ملک میں اصلاح احوال کی صورت بنی اور تعمیروترقی کانیا دور شروع ہوگیا۔
ریاست کی تعمیرکی شہرت چار سوپھیلی تو ارسلان کو ملک بدر کرنے والے بادشاہ اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ارسلان نے اپنا دلی عہدلانے کی شرط رکھی۔ بادشاہ اپنے والی عہد یعنی شہزادے کو لیکر بادشاہ کے دربار میں پہنچا تو اپنے دوست کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ادھر بادشاہ بھی اسے دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ ارسلان کا حسن سلوک دیکھ کر اسے شرمندی ہورہی تھی مگر ارسلان نے کہا کہ بے شک آدمی کی حیثیت واختیار کامالک وخالق وہی ہے جو دن رات کو آپس میں تبدیل کرنے کی طاقت رکھتا ہے مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیں اگر مجھے ملک بدرنہ کرتے تو آج بھی لکڑیاں بچ کرگزارہ کررہاہوتا لیکن اللہ تعالیٰ بہترین کار ساز ہے۔ پیار بچوآپ بھی محنت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اس لئے آپ کو بھی محنت کرنی چاہئے تاکہ آپ بھی کامیاب زندگی بسر کرسکیں۔
برسوں پہلے کی بات ہے کہ ایک شہزادے کی لکڑہارے سے دوستی ہوگئی۔ ہوایوں کہ شہزادہ شکار کیلئے جنگل میں گیا کہ اچانک سامنے سے شیر آگیا اس کی دھاڑ سے گھوڑا بد ک گیا جس کی وجہ سے شہزادہ توازن برقرار نہ رکھ سکااور گرگیا۔ شیر کو بالکل سامنے دیکھتے ہوئے شہزادے فوراََ تلوار نکالی اور مقابلے کیلئے تیار ہوگیا۔ شیراس کی جانب لپکا شہزادے نے تلوار گھمائی جو شیر کی پسلیوں میں لگی اب زخمی شیر اور بھی خطرناک ہوگیا تھا۔ اس نے شہزادے پر چھلانگ لگائی تو شہزادے کے ہاتھ سے تلوار گرپڑی۔ شیرنے شہزادے کو زخمی کردیا۔ شہرادے نے خوب مقابلہ کیا مگر پھرے درندے سے مقابلہ آسان نہ تھا۔ آخر کار شیر نے اسے گرا دیا۔قریب تھا کہ شہزادے کی گردن دبوچتا اچانک شیردھاڑ کر پیچھے کو مڑا کسی نے اس کی کمر میں بڑی زور سے کلہاڑا ماراتھا۔ شیر دھاڑ اور جنگل کی طرف بھاگ نکلا۔ شہزادے نے دیکھا کہ ایک خوبصورت نوجوان نے فوراََ شہزادے کو اٹھایاایک محفوظ جگہ پر لے جا کر اس کی مرہم پٹی کی۔ کچھ دیر بعد شہزادے کے محافظ سے ڈھونڈتے ہوئے پہنچ گئے۔ انہوں نے شہزادے کو دوسرے گھوڑے پر بٹھایا اور محل کی طرف روانہ ہوگئے۔
یوں لکڑہارے کی شہزادے سے دوستی ہوگئی وہ اس کی تیمارداری کیلئے محل آنے لگا تھا۔ شہزادہ اسے پسند کرنے لگا تھا کیونکہ وہ ذہین ، عقلمند اور بہادر تھا۔ لیکن بادشاہ کو اس کی دوستی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ اس نے شہزادے نے احتجاج کیا کہ وہ میرا محسن ہے اور بہت اچھے اخلاق کامالک اور ذہین انسان ہے۔ غریب ہونا کوئی جرم نہیں۔ ایسے سمجھدار سے دوستی کاہاتھ بڑھایا ہے اب مجھیت زیب نہیں دیتا کہ اس سے تعلق توڑوں۔
بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ اسے اور اس کے خاندان کو ملک بدرکردیاجائے۔ یوں ایک فوجی دستہ لکڑہارے کو بے یاد مددد گار سرحد سے باہر چھوڑ آیا۔ کئی دنوں کی مسافت کے بعد وہ بھوکا پیاسا ایک بڑے شہر پہنچا جہاں کھلے میدان میں بڑے چبوترے پر بڑی پگڑیوں والے بہت سے سردار، امراء اور تاجر بیٹھے تھے جن کے سامنے میزپر پنجرے میں ایک پرندہ قید تھا۔ لکڑہارے نے اس بڑے اور عالیشان مجمع کا سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ کل ان کا بادشاہ فوت ہوگیا۔ آج یہاں نئے بادشاہ کا انتخاب ہوگا۔ کچھ لمحوں میں چبوترے پر رکھا پنجرہ کھولا جائے گا اس میں بیٹھا پرندہ جس کے کندھے پر بیٹھے گا وہی ہمارا بادشاہ ہوگا۔ لکڑہارا ارسلان یہ دلچسپ منظر دیکھنے لگا۔ قسمت کی خوبی جب پنجرہ کھولا تو پرندہ اڑ کر ارسلان کے کندھے پر آن بیٹھا۔ لوگوں نے تالیاں بجائیں اور اپنے نئے بادشاہ کو محل لے آئے اور رسومات کی ادائیگی کے بعد بادشاہت کاتاج ارسلان کے سرپرسجادیاگیا۔ یوں محنت ومشقت کرنے والا نیک دل اور بہادر لکڑہارا بادشاہ بن گیا۔ چندروز آرام وسکون سے حالات کاجائزہ لینے کے بعد اس نے مملکت کے معمالات دیکھنے شروع کیے تو معلوم ہوا کہ ملک میں لاقانونیت، لوٹ مار، غنڈہ گردی، چوری چکاری عام ہے۔ بے تحاشہ کرپشن اور رشوت ستانی کابازار گرم ہے۔ بااثر ظالموں سے کسی کی جان ومال محفوظ نہیں۔
بادشاہ کے دربار میں روزانہ ہزاروں درخواستیں دیتے ہیں مگر راشی داروغہ بادشاہ نہیں پہنچے دیتا۔ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس نے اعلان کروادیا کہ آج کے بعد کوئی رشوت نہیں لے گا۔ اگر معلوم ہوگیا تو اس کی سزا پھانسی ہوگی۔ ہر طرف سناٹاچھاگیا مگرلوگ کب بازآنے والے تھے۔ انہوں نے رشوت لینی نہ چھوڑی جس جس کاپتہ چلتا اسے پھانسی چڑھا دیاجاتا۔ کچھ ہی دنوں میں رشوت لینے اور دینے والوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ رشوت کے خاتمے کے ساتھ ہی غنڈہ گردی اور لاقانونیت کابھی خاتمہ ہوگیا۔ ہر شخص اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق کاخیال کرنے لگا۔ یوں ملک میں اصلاح احوال کی صورت بنی اور تعمیروترقی کانیا دور شروع ہوگیا۔
ریاست کی تعمیرکی شہرت چار سوپھیلی تو ارسلان کو ملک بدر کرنے والے بادشاہ اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ارسلان نے اپنا دلی عہدلانے کی شرط رکھی۔ بادشاہ اپنے والی عہد یعنی شہزادے کو لیکر بادشاہ کے دربار میں پہنچا تو اپنے دوست کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ادھر بادشاہ بھی اسے دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ ارسلان کا حسن سلوک دیکھ کر اسے شرمندی ہورہی تھی مگر ارسلان نے کہا کہ بے شک آدمی کی حیثیت واختیار کامالک وخالق وہی ہے جو دن رات کو آپس میں تبدیل کرنے کی طاقت رکھتا ہے مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیں اگر مجھے ملک بدرنہ کرتے تو آج بھی لکڑیاں بچ کرگزارہ کررہاہوتا لیکن اللہ تعالیٰ بہترین کار ساز ہے۔ پیار بچوآپ بھی محنت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اس لئے آپ کو بھی محنت کرنی چاہئے تاکہ آپ بھی کامیاب زندگی بسر کرسکیں۔
0 comments here: